کیا
رہبانیت اور جوگیت انسانیت کی معراج ہے؟
از: مفتی محمد یحییٰ
قاسمی
سب ایڈیٹر:
‘‘اسلامی تجارہ’’، ممبئی
بہت سے مذاہب میں
آرزؤوں اور تمناؤوں سے اپنے آپ کو خالی کر لینا انسانیت کی
سب سے بڑی سعادت سمجھا جا تا تھا۔ مہاتما بدھ کی جانب یہ
منسوب کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت کو مدعاؤں سے خالی کر لینا،
نہی نروانا کا سب سے بڑا مقدس نصب العین ہے یاپھر رہبانیت
اور جوگیت جو انسانیت کی معراج سمجھی جاتی ہے اس کے
معنی بھی اپنے کو دنیا سے بالکل علیحدہ کر لینا ہی
ہے۔کلیسا کے باغیوں نے کلیسا پر الزام لگایا تھا
اور یقینا یہ الزام بیجا نہ تھا کہ اس نے آدمی کو
آدمی نہیں، پتھر فرض کر لیا تھا کہ آرزؤوں اور تمنا ؤوں سے دست
برداری کی توقع پتھروں ہی سے کی جا سکتی ہے، ان ہی
کے سینے ارمانوں اور خواہشوں سے خالی ہو سکتے ہیں۔
عیسائی
مذہب میں انسانیت کی معراج یہ تھی کہ وہ فرشتہ ہو جائے
یعنی اس مذہب میں لذائذ حیات اور انسان کے فطری
احساسات کے تقاضوں کو غلط یا صحیح طریقے سے دبانے کی کوشش
جاری تھی۔ سمجھا یہ جا تا تھاکہ بہیمی اور حیوانی
کثافتوں کی چادر اس غریب فرشتہ کو اوپر سے لپٹ گئی ہے۔ اس
چادر کو چاک کر کے اپنی ملکوتی کے چمکانے میں جو زیادہ
کامیاب ہو گا ،وہی اپنی اصل حقیقت سے زیادہ قریب
ہو تا چلا جائے گا۔مطلب یہ کہ وہی یورپ جس کا آسمان بھی
آج معاش ہے اور زمین بھی اس کی معاش ہی ہے۔ آج جو
مجسم معاشیات یا کہیے تو کہہ سکتے ہیں کہ صرف شکم ہی
شکم بن کر رہ گیا ہے۔اس یو رپ کا حال اپنے ملکوتی عہد میں
اس معاشیات کے متعلق یہ تھا۔جیساکہ اس ملک کے ایک
معاشی مورخ نے لکھا ہے:
’’معیشت ان کے (یعنی انہیں
قدیم ملکوتی عیسائیوں) کے نزدیک کبھی فی
نفسہ قابل توجہ نہ بنی۔ مقاصد معینہ (فرشتہ بننے کی مہم
اور اس کے مقدمات) کے لئے ذریعہ کی حیثیت سے قدروں کے ہمہ
گیر نظام میں اس معیشت غریب کی جگہ کہیں حاشیہ
پر تھی۔‘‘
انتہا یہ ہے
کہ جدید معاشی دور کا آغاز جن بزرگوں کی اصلاحی آواز کی
بدولت جیسا کہ اسی ملک کے لوگوں کا بیان ہے، ظہور پذیر
ہوا ہے۔ میری مراد پروٹسٹنٹ فرقہ اور ان کی اصلاحی
اقدامات سے ہے دوسرے نہیں۔ اسی صلاحی پیغام کے سرخیل
اعظم یعنی جناب لوتھر تک کے مواعظ اور خطبات میں اس وقت تک اس
قسم کے فقرے بے جھجک استعمال ہو تے تھے،مثلا لوتھر کا مشہور مقولہ ہے ۔ وہ
کہا کرتا تھا
’’دولت ان ہی
ٹھیٹھ گدھوں کو (اللہ میاں) دیتے ہیں جنہیں وہ کچھ
ارزانی نہیں فرماتے۔‘‘
اورظاہر بھی
یہی ہے کہ کلیسا کے مذہب سے لو تھر جتنا بھی بیزار
ہو لیکن اس مذہب کا تو وہ بہر حال معتقد بلکہ سرگرم وکیل اور حامی
تھا۔ جس کا نصب العین آدمی کو فرشتہ بنانا قرار دیا گیا
تھا۔ ایسی صورت میں اگر دولتمندوں کو لو تھر صاحب گدھا یا
ٹھیٹھ گدھے کے نام سے مو سوم کر تے تھے تو جس کا نصب العین ملک(فرشتہ)
ہونا ہو، اس بلند نصب العین کو چھوڑ کر اپنی ساری توانائی
دولت مند ہونے پر خرچ کر دی ہو اپنی اس حماقت کی وجہ سے اگر
سمجھنے والے اس گدھا سمجھتے تھے تو غلط کیا سمجھتے تھے۔
لیکن خیر
یہ تو پرانی بات ہے۔ صدیوں کی کشمکش کے بعد فرشتہ
بنانے والے مذہب کے جوئے سے اس مسلک والوں نے اپنے آپ کو آزاد کر لینے میں
جب کامیابی حاصل کی تو جیسا کہ ٹاؤنی نے لکھا ہے:
’’مذہب نے انسانی
طمع پر بہت سے قیود عائد کر رکھے تھے۔ سولہویں صدی کی
تجارتی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے (مذہب)کے اقتدار کا مقابلہ کیا
گیا اور سترہویں صدی کے اخیر تک مذہب آئندہ معاشیات
پر حکمراں نہ رہ سکا۔ تاہم اس کے اقتدار کی دھجیاں باقی
رہ گئیں.... لیکن اٹھارہویں صدی کے پر زور مقابلہ میں
طلب و رسد کے قانون اور نفع و راحت کے نام پر معاشیات اور مذہب کے درمیان
طلاق واقع ہو گئی۔‘‘ (داستان دہقان ص۳۲۶)
یعنی
کلیسا اور دنیا کے درمیان ان کے نزدیک تضاد تھایعنی
ان کا خیال یہ تھا کہ مذہب محض ایک پرسنل اور شخصی مشغلہ
کی حیثیت سے جینا چاہے تو جی سکتا ہے لیکن
زندگی کے عمومی اور اجتماعی شعبوں میں اس کے دخل اندازیوں
کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ انسان
اپنی ذاتی مفاد کے حاصل کرنے میں خدائی اور اخلاقی
پابندیوں سے بالکل آزاد ہے اور مذہبی حدود اس کے خواہشات کے حصول کی
راہ میں رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکتے۔ اس کانتیجہ یہ
ہوا کہ سرمایہ داری کی آڑ میں طاقتوروں نے کمزوروں کا وہ
جنازہ نکالا کہ سرمایہ داری کے حمایت کرنے والے بھی چیخ
اٹھے ۔ان ہی ظلم و عدوان اور کمزوروں کے استیصال کو دیکھ
کر آدم اسمتھ (AADAM SMATH) نے کہا: ’’اپنے اپنے طور پر اپنے
ذاتی مفاد کے حاصل کرنے میں گو ہر شخص آزاد ہونا چاہیے لیکن(اگر
مذہب نہیں) تو قوانین عد ل و انصاف میں تو ردوبدل نہ کرنا چاہیے۔‘‘
لیکن دولت
کے حوالے سے لوگوں کی جنوں کی حدتک دیوانگی نے اور سرمایہ
داری کے عفریت نے سود کی شکل میں عدل و انصاف کی وہ
پامالی کی کہ دنیا کانپ اٹھی۔آدم اسمتھ کا وعظِ عدل
و انصاف حرص وطمع اور ھل من مزید کے سیل رواں میں بہہ گیا۔
جیسا کہ ایک مشہور معاشی مورخ ٹاؤ نی نے لکھا ہی: ’’اٹھارہویں صدی کے پر
زور مقابلہ میں اس کی (یعنی آدم اسمتھ) کی تعلیم
کا بنیادی اصول بھی فراموش کردیا گیا۔‘‘
انسان کو فرشتہ بنانا اور اس کو دنیا وی
زندگی سے الگ کردینے کانتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ انسان مذہب
سے بیزار ہوگئے اور پھر اس کے رد عمل کے طور پر جو معاشی فلسفہ پیش
کیا وہ بھی کمزوروں اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے ظلم وستم کا ایک
پہاڑ بن کے کھڑا ہو گیا۔اس کے بر خلاف اسلام کا نقطئہ نظر بھی
ملاحظہ فرمائیے جو اعتدال کی دعوت دیتا ہے۔
اسلام نے مذہب اور دنیا کو الگ نہیں
کیا اس سے بڑھ کر اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اللہ نے کسی
بھی مذہب میں اس کو فرض نہیں کیا جیسا کہ قرآن کی
سورہ حدید کی آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے :’’رہبانیت جسے انہوں نے خود تراش لیا ہے نہیں
فرض کیا ہے ہم نے اس کو ان پر۔‘‘ اس کامطلب صاف ہے کہ حق تعالیٰ
کی طرف سے علم و عمل کا جو نظام بنی آدم کو مذہب اور دین،دھرم
وغیرہ کے ناموں سے ملتا رہا ہے اس میں اس غیر فطری نظریہٴ
حیات کا کبھی مطالبہ نہیں کیا گیا۔یقینا
اس آیت سے صرف اسلام ہی کی براء ت رہبانیت سے ثابت نہیں
ہوتی بلکہ مذہب کی پوری تاریخ سے اس کی بے تعلقی
کا اظہار کیا گیاہے۔قرآن کی اس آیت کی بنیاد
پر ہر مسلمان اس بات کے ماننے اور یقین کر نے پر مجبور ہے کہ عیسائی
مذہب ہو یا یہودی دین، ابراہیمی ملت ہو یا
نوحی دعوت کسی کا رہبانیت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
سورہ نساء آیت
نمبر ۵ میں اللہ تعالیٰ حصول معاش کا یہ واضح دستور
ارشاد فرماتا ہے:’’ مر دوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں اور
عورتوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں۔‘‘ یہ آیت
حصول دنیا کے سا تھ ساتھ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ
عورت بھی جو کمائے وہ اس کا حصہ ہے۔لیکن ہاں یہ تمام کسب
معاش ان شرعی حدود کے اندر ہوں جوقرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں
مذکور ہیں۔ عزت و آبرو گنوا کر،عصمت و عفت کا دامن تا ر تار کرکے اور
شمع محفل بن کر کسب معاش کی اجازت قرآن کیسے دے سکتا ہے۔
لیکن دین
ودنیا کی سیکولر تقسیم کا یہ نتیجہ ہے کہ
مسلمان اسلام کو نکاح و طلاق،وضو اور غسل، عبادات اور اخلاق تک محدود سمجھنے لگے ہیں
ورنہ حقیقت جیسا کہ اوپر امذکور ہوا یہ ہے کہ اسلام ایک
مکمل نظریہٴ حیات ہے جو عبادات و تسبیحات،معاشرت و سیاست،
تعلیم و ثقافت،اخلاق و اقدار،اجتماعیت و انفرادیت غرضیکہ
زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی دیتا ہے۔
اسلامی نظریہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ دین
و دنیا کی تقسیم کو ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کر
تا ہے۔ یہاں نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی اجازت ہے
نہ دنیا پرستی اور پرستش زر کی۔ اسلام دین و دنیا
کی تقسیم کو غیرالٰہی نظریہ قرار دیتا
ہے۔
خلاصہ یہ کہ
اسلام کا نقطئہ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ
نظاموں سے مختلف ہے۔یہاں معاشرت،تمدن، سیاست ،معیشت غرض
دنیوی زندگی کے سارے شعبے کے ساتھ ساتھ روحانیت کا نور
حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہاں روحانی ترقی کے لئے
جنگلوں،پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں
روحانی قدوروں کو معاشرے میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا
ہے۔یہاں تو رشتہٴ ازدوج سے منسلک ہو کر بھی روحانی
بلندیا ں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
٭٭٭
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ،
جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء